سائفر کیس میں ملزمان کی گرفتاری کا فائدہ نہیں، رہائی سے حقیقی انتخابات کو یقینی بنائیں گے، سپریم کورٹ

 


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سائفرکیس میں ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ عمران خان نے سائفر کو کسی ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے پبلک کیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے لکھا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ان کی رہائی کے ذریعے اصلی انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔

سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی چیئرمین عمران خان اور رہنما شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خفیہ معلومات کو غلط انداز میں پھیلانے کی سزا دو سال ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جن شقوں کا اطلاق سائفر کیس میں کیا گیا وہ قابل ضمانت ہیں۔

عمران خان نے ضمانت کا غلط استعمال کیا تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کرسکتی ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ عمران خان نے دوسرے ملک کے فائدے کے لیے سائفر کو پبلک کیا ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، فیصلے میں دی گئی آبزویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی، بانی پی ٹی آئی ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔

سیکرٹ ایکٹ سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، سپریم کورٹ

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد نہیں، ملزمان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرم کے ارتکاب کے لیے مزید انکوائری کے حوالے سے مناسب شواہد موجود ہیں مزید تحقیقات کا فیصلہ ٹرائل کورٹ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی   عمران خان نے جرم کیا یا نہیں ٹرائل کورٹ 

 طے کرے گی، سپریم کورٹ

ہائی کورٹ کا ملزمان کو ضمانت نہ دینا حقائق کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ ی

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کا عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت نہ دینا دستیاب مواد کے خلاف ہے ہائی کورٹ نے ضمانت نہ دے کر حقائق کے برخلاف رائے دی

ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار معاشرے کے خلاف جرم میں ملوث نہیں،

ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا پورا ٹرائل دستاویزات شواہد پر منحصر ہے ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی کے ذریعے اصلی انتخابات کو یقینی بنائیں گے، کیس میں ایسے حالات نہیں کہ ضمانت مسترد کی جائے۔

عوام کا حق رائے دہی استعمال کرنا آئینی حق ہے جس کے لیے ہر سیاسی جماعت کے امیدوار کو بلا خوف و خطر یکساں مواقع ملنے چاہئیں، اصل انتخابات وہی ہوتے ہیں جس میں ووٹر آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرسکے، سیاسی رائے کی بنیاد پر اصل انتخابات پر سمجھوتہ کرنے پر انتخابات کا درجہ گر جاتا ہے، ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنے شہریوں تک پہنچ سکے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ’جب ہر سیاسی جماعت کو یکساں طور پر مواقع نہ ملیں تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست گزاران پر ایسے سنگین الزامات نہیں ہیں جس کے معاشرے کو خطرہ ہو، معاشرے کیلئے خطرے کا سبب بننے والے جرائم میں زیادتی، قتل عام اور بچوں کیساتھ بد سلوکی شامل ہیں، حقیقی انتخابات کیلئے درخواست گزاران کو ضمانت ملنا ضروری ہے۔

اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ تقریباً ہر منتخب وزیراعظم عہدے سے ہٹانے کے بعد کو قید کیا گیا، وزراء اعظموں کو نااہل کیا جاتا رہا جبکہ مخالفین کے خلاف مقدمات چلا کر انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ سے مرحوم رکھا گیا، 2018کے عام انتخابات میں بھی لیول پلینگ فیلڈ نہیں تھی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی لوگوں کو جنازہ پڑھنے سے بھی روکا گیا، قوم کی آدھی زندگی فوجی آمروں میں گزری، کوئی ایک فوجی آمر ایک دن بھی جیل میں قید نہ ہو سکا، منتخب وزرا اعظموں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کیلئے انھیں قید کیا گیا یا جلا وطن کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے۔

dailyworldnewsofficial@gmail.com

Phasellus facilisis convallis metus, ut imperdiet augue auctor nec. Duis at velit id augue lobortis porta. Sed varius, enim accumsan aliquam tincidunt, tortor urna vulputate quam, eget finibus urna est in augue.

No comments:

Post a Comment